بڑھاپے میں تندرستی کا انوکھا راز
ورزش کا شوق ملک ملک بڑھ رہا ہے‘ کیوںکہ اچھی صحت اور توانا و سرگرم زندگی کا راز یہی ہے کہ ورزش کی جائے اور صحت بخش غذا کھائی جائے۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ایشیا کے جس بڑے غلام و بد حال ملک نے آزادی حاصل کی وہ چین ہی تھا۔ زخموں سے چور‘ درماندہ و پریشان حال اس ملک نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ہر شعبے میں ناقابل یقین اور مثالی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے راہنماﺅں نے اپنی قوم کو سب سے پہلے تعمیر نو کیلئے صحت و توانائی کی بحالی کی ضرورت کا احساس دلایا اور خود اس راہ پر چل کر اسے بالآخر ترقی و کامیابیوں سے ہم کنار کیا۔ تعمیر و ترقی کے لئے ان کے پاس موٹر کاریں برائے نام تھیں۔ انہوں نے سائیکلوں سے فاصلے طے کرنے کا عزم کیا اور وزیر اعظم بھی اپنے دفتر سائیکل پر آنے جانے لگے۔ گاڑیاں انہوں نے انجینئروں کیلئے مخصوص کر دیں تاکہ وہ دور دراز کے فاصلے جلد طے کر سکیں۔ سادہ لباس اور سادہ غذا اختیار کی تاکہ غیروں سے مانگ کر کھانے اور اپنی خود مختاری اور قومی حمیت کا سودا کرنے کی نوبت نہ آئے۔ صدر ماﺅزے تنگ نے صبح ورزش کو لازمی قرار دیا تو ہر چینی مرد و زن نے واقعی اسے اپنے لئے لازمی قرار دے دیا۔ لوگ کھیتوں‘ میدانوں یہاں تک کہ چلتی ریل گاڑیوں میں موزوں و مناسب ورزش وقت مقررہ پر کرنے لگے۔ اس دور کے سفر نامے پڑھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ ورزش کا وقت آتے ہی گاڑیوں میں لگے پبلک ایڈریس سسٹم کے ذریعے سے مسافروں کو ڈبوں میں سیٹوں پر اور راہداریوں میں ہلکی پھلکی ورزشیں کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اسی طرح انہیںپیراکی سیکھنے کی ترغیب دی گئی تو کروڑوں افراد اپنے راہنماﺅں کی قیادت میں دریاﺅں اور جھیلوں میں تیرنے لگے۔ ان رہنماﺅں میں سے اکثر ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ خود ماﺅزے تنگ نے اس کی قیادت کی اور ثابت کر دکھایا کہ ورزش کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں۔ ہر فرد کی اصل ضرورت اور فرض یہ ہے کہ وہ خود کو ورزش کے ذریعے سے چست و توانا رکھے۔ آج بھی جن ملکوں میں اجتماعی ورزشیں مقبول ہیں وہاں ان میں ہر عمر کے افراد شرکت کرتے ہیں۔ا مریکا میں گزشتہ دس سال کے عرصے میں واک کا شوق اتنا بڑھا کہ واکرز کلب قائم ہو گئے۔ ہندوستان میں صبح کے وقت کھلی فضا میں قہقہے لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تو شہر شہر قہقہہ کلب بن گئے۔ دوڑنے کی ورزش مقبول ہوئی تو اس کے مقابلوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہونے لگے۔ کراچی کے ایک کمشنر نے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں مرگلہ پہاڑیوں پر چڑھنے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اپنے ساتھ کوہ نوردی کی اس مشق میں سینکڑوں کو شامل کر لیا۔ اس میں بھی عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ قید اور ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ کے پاس قوت ارادی ہو۔ آپ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا اندازہ کر کے احتیاط اور مستقل مزاجی کے ساتھ دوڑنے کی مشق کریں اور اس میں بتدریج اضافے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں کہ جب تک آپ اس سے لطف اندوز ہوں۔
اسی طرح نیو یارک کے ایک بڑے میاں کا حال بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے کہ جنہیں دوڑتا دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ ”قابلِ‘ صدرشکِ جوانی ہے بڑھاپا تیرا“۔
79 سال کی عمر میں انہوں نے نیو یارک میراتھن ریس میں 17 ہزار افرا دکے ساتھ حصہ لیا اور26.2میل کا فاصلہ پانچ گھنٹے اور پچیس منٹ میں طے کیا جبکہ ان کا ارادہ یہ فاصلہ پانچ گھنٹوں سے کم وقت میں طے کرنے کا تھا لیکن بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ جمع پانی سے ان کے جوتے بھیگ گئے۔
ان جواں ہمت بزرگ کا نام نیٹ ہے اور بقول ان کے دوڑنے کی ورزش اختیار کرنے کافیصلہ انہوں نے 68 سال کی عمر میں کیا تھا‘ کیوں کہ اس عمر میں انہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ انہیں اپنے تھکتے اور کمزور ہوتے جسم کو درست رکھنے کی فکر ہوئی۔ پچھلے 25 سال سے وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بھی تھے جبکہ ان کے 40 سے 50 سال عمر کے کئی شناسا اس عمر میں بھی جوگنگ کر رہے تھے۔ اسی فکر میں انہوں نے مختلف ورزشوں پر غور کیا‘ یہاں تک کہ دوڑ کے بارے میں کئی کتابیں پڑھ ڈالیں جن سے اندازہ ہو سکے کہ لوگ 60 سال کی عمر میں بھی یہ ورزش اختیار کر سکتے ہیں جبکہ ان میں سے کئی نے یہ ورزش قلب کے حملے جھیلنے کے بعد اختیار کی تھی۔
انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے گھر کے پچھلے صحن میں اس ورزش کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ گیٹ سے پچھی دیوار تک 80 چکر میں وہ ایک میل کا فاصلہ دوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے دھیرے دھیرے یہ ورزش شروع کی اور ایک میل دوڑنے لگے۔ جب یہ فاصلہ دوگنا کرنے کا ارادہ کیا تو گھٹنوں کے زخمی ہونے سے دوڑ کا سلسلہ چھ مہینوں کیلئے روکنا پڑا‘ لیکن تکلیف دور کرنے کی فکر بھی لگی رہی۔ چنانچہ ورزشوں کے ماہر کے مشورے سے انہوں نے پٹھوں کے جوڑوں کو صحیح انداز میں پھیلانے اور سکیڑنے کے طریقے سیکھے تاکہ جوڑ زخمی نہ ہوں اور چھ ماہ بعد وہ دوبارہ دوڑنے لگے۔ اب وہ روز چھ میل کی دوڑ لگانے لگے۔ یہ سلسلہ جاری تھا یہاں تک کہ جب عمر 75 سال ہو گئی تو ان کے ایک شریکِ دوڑ نے انہیں آدھی میراتھن دوڑ میں حصہ لینے کا مشورہ دیا۔ اس میں یہ نہ صرف شریک ہوئے بلکہ نصف کے بجائے پورا فاصلہ دو گھنٹے سات منٹ میں طے کر لیا۔ یہ کارکردگی کئی نوجوانوں سے بہتر قرار دی گئی۔ اس سال انہوں نے ایسے چھ مقابلوں میں شرکت کی اور اگلے سال سینئر ز اولمپکس کی دوڑ 100 درجے فارن ہائٹ گرمی میں مکمل کی یہاں تک کہ 70 سے 79 سال کی عمر کے لوگوں کی ایک دوڑ میں وہ اپنے گروپ میں چوتھے نمبر پر رہے۔
غذائی عادات
اپنی ان کامیابیوں کی ایک وجہ وہ اپنی غذائی عادات کو بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ گوشت نہیں کھاتے‘ جس کے نتیجے میں وہ پیٹ کی شکایات اور دیگر عام بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اب تو دوڑ کی وجہ سے ان کے معدے‘ جگر‘ آنتوں اور گردوں وغیرہ کی کارکردگی اور بھی بہتر ہو گئی ہے‘ یہاں تک کہ اب بلڈپریشر سے بھی نجات مل گئی ہے۔ وہ اب اس کیلئے کوئی دوا نہیں کھاتے۔
اہم مشورہ
مسٹر نیٹ کی بڑی خواہش ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کی طرح دوڑنے کی ورزش اختیار کر کے صحت مند اور توانا رہیں۔ اس سلسلے میں ان کا مشورہ ہے کہ ایسے افراد سب سے پہلے وارم اپ اور پٹھوں کی لچک بڑھانے والی مشقیں سیکھیں۔ ان کے مطابق دوڑنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ ہر شخص دوڑ سکتا ہے۔ وہ ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں کہ جنہوں نے 80 اور 90 سال کی عمر میں یہ ورزش شروع کی ۔ یہ لوگ اگرچہ بہت تیز نہیں دوڑ سکتے لیکن پھر بھی میلوں دوڑتے ہیں۔ کم رفتاری کی وجہ سے ان کے جوڑ زخمی نہیں ہوتے اور انہوں نے ابتدائ‘ تھوڑے فاصلوں اور کم رفتاری سے کی ہے۔ دوڑ کے سلسلے میں وہ مناسب جوتوں کے استعمال کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ اپنے معالج کے مشورے سے بسم اللہ کیجئے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 192
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں